حضرت مالک بن دینار رحمتہ اللہ علیہ ،حضرت خواجہ حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کے ہمعصر تھے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی پیدائش اس وقت ہوئی جبکہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے والد غلامی کی حالت میں تھے۔ بظاہر آپ رحمتہ اللہ علیہ غلام زادہ ہیں لیکن باطنی حیثیت میں آپ کی ذات بابرکات ہر طرح آزاد ہے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی کرامات کا ذکر اور ریاضت کا تذکرہ اکثر ہوتا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ دینار آپ رحمتہ اللہ علیہ کے والد کا نام تھا اوربعض اسکے متعلق ایک روایت یوں بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کشتی پر سوار تھے۔ جب کشتی دریا کے درمیان پہنچی تو ملاحوں نے مسافروں سے اپنی مزدوری طلب کی۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ میرے پاس کچھ نہیں جس پر ملاحوں نے آپ رحمتہ اللہ علیہ کو بری طرح مارا حتیٰ کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ بے ہوش ہو گئے۔ جب آپ رحمتہ اللہ علیہ ہوش میں آئے تو پھر مارا اور اجرت طلب کرنی شروع کی اور کہا کہ اگر تم اجرت نہ دو گے تو تمہیں باندھ کر دریا میں پھینک دیا جائے گا۔ اس وقت دریا کی مچھلیاں ایک ایک دینار منہ میں پکڑے ہوئے کشتی کے ارد گرد آگئیں۔ ایک مچھلی سے دینار لے کر آپ رحمتہ اللہ علیہ نے ملاحوں کے حوالے کر دیا۔ جب لوگوں نے یہ ماجرا دیکھا تو اپنے سلوک پر سخت شرمندہ ہوئے۔مذکور ہے کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ دمشق میں رہتے تھے۔ جامعہ دمشق میں جس کو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے تعمیر کروایا تھا۔ اس خیال سے معتکف تھے کہ مسجد کی تولیت ان کو مل جائے۔ چنانچہ ایک سال تک آپ رحمتہ اللہ علیہ عبادت کرتے رہے۔ جس کسی نے آپکو دیکھا ہر وقت نماز ہی میں مصروف پایا لیکن آپ رحمتہ اللہ علیہ اپنے آپکو منافق کہتے تھے۔ ایک سال کے بعد ایک رات مسجد سے باہر نکلے اور آواز سنائی دی کہ اے مالک تو کیوں نہیں توبہ کرتا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے جب اس آواز کو سنا تو حیران ہو کر مسجد میں واپس آگئے اور تولیت کے خیال کو دل سے نکال کر عبادت الٰہی میں مصروف ہو گئے اور ایک سال کی ریائی عبادت پر نہایت شرمندہ ہوئے۔ صبح کو لوگ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے کہ مسجد کیلئے ایک متولی کی ضرورت ہے اور آپ رحمتہ اللہ علیہ سے بڑھ کر کوئی شخص ہمیں بہترنظر نہیں آتا۔ حضرت مالک رحمتہ اللہ علیہ نے دل ہی دل میں کہا۔ خداوند ایک سال کی سخت ریاضت کے باوجود مالک کو کسی نے پوچھا تک نہیںاور اب کہ میں نے اپنے یقین کو درست کر لیا تو تو نے اتنے آدمیوں کو بھیج دیا کہ یہ کام میرے گلے میں منڈھ دیں۔ خدا کی قسم !اب میں مسجد سے باہر نکلنا نہیں چاہتا۔ یہ کہہ کر ریاضت ومجاہدہ میں مصروف ہو گئے۔ایک دفعہ آپ رحمتہ اللہ علیہ ایک دیوار کے سائے میں آرام فرما رہے تھے اور ایک سانپ نرگس کی شاخ منہ میں لے کر آپ رحمتہ اللہ علیہ کو پنکھا جھل رہا تھا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ بیان فرماتے ہیں کہ میں مدت سے جہاد میں شریک ہونے کی خواہش رکھتا تھا لیکن جب جہاد کا موقع آیا تو میں بیمار ہو گیا اور نہ جا سکا۔ اسی غم میں نیند آگئی تو کیا دیکھا کہ کوئی شخص کہہ رہا ہے یہ بخار تیرے حق میں خدا کی نعمت ہے کیونکہ اگر تو جہاد میں شامل ہوتا تو گرفتار ہو جاتا اور دشمن تجھ کو سور کا گوشت کھلاتے ۔ چنانچہ میں نے خواب سے بیدار ہو کر شکر الٰہی ادا کیا۔ایک دفعہ ایک دہریہ سے آپ رحمتہ اللہ علیہ کا مناظرہ ہوا اور بہت دیر ہو گئی۔ وہ کہتا تھا کہ میں حق پر ہوں۔ آخر فیصلہ اس امر پر ہوا کہ اپنے اپنے ہاتھ آگ میں ڈالیں جس کا ہاتھ جل جائے گاوہ باطل سمجھا جائیگا۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا مگر دونوں میں سے کسی کے ہاتھ کو آگ نے نقصان نہ پہنچایا۔ لوگ کہنے لگے کہ دونوں حق پر ہیں۔ اس بات سے دل گیر ہو کر آپ رحمتہ اللہ علیہ گھر آئے اور جبین نیاز زمین پر رکھ کر بارگاہ الٰہی میں مناجات کی کہ ستر سال کی عبادت کے بعد ایک دہریہ کے برابر ہو سکا۔ غیب سے آواز آئی کہ تمہیں علم نہیں کہ محض تمہارے ہاتھ کی برکت سے دہریے کا ہاتھ نہ جلنے پایا اگر وہ تنہا ہاتھ آگ میں ڈالتا تو فی الفور جل جاتا۔
نقل ہے کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ ایک دفعہ سخت بیمار ہو گئے اور زندگی کی امید نہ رہی۔ آخر اللہ تعالیٰ نے شفا بخشی۔ شیخ خود فرماتے ہیں کہ ابھی میں کمزور ہی تھا کہ کسی چیز کی ضرورت سے بازار جانے کا اتفاق ہوا۔ سامنے سے امیر شہر آرہا تھا اور چوبدار لوگوں کو راستے سے ہٹاتا جا رہا تھا۔ مجھ میں اتنی طاقت نہ تھی کہ جلدی سے علیحدہ ہو جاتا۔ چنانچہ چوبدار نے مجھے کوڑا مار کر علیحدہ کیا۔ میں نے کہا خدا تیرے ہاتھ کو توڑے۔ دوسرے دن میں نے اس کودیکھا کہ اس کا ہاتھ کٹا ہوا تھا اور چوراہا میں ذلیل آدمیوں کی طرح پڑا تھا۔روایت ہے کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے ہمسایہ میں ایک مفسد نوجوان رہا کرتا تھا اور آپ رحمتہ اللہ علیہ کو ہمیشہ اس سے رنج پہنچتا تھا لیکن آپ رحمتہ اللہ علیہ ہر حالت میں صبر فرماتے ۔ آخر اس آدمی کی شکایت لے کر چند آدمی آپ رحمتہ اللہ علیہ کے پاس آئے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ شکایت سن کر اس کے پاس گئے تاکہ اس کو سمجھائیں لیکن وہ بد زبانی سے پیش آیا اور کہا کہ میں بادشاہ کا آدمی ہوں۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ میں بادشاہ سے کہوں گا اس نے کہا کہ بادشاہ میری رضا مندی کے خلاف کچھ نہ کرے گا۔ پھر آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ بادشاہ نہیں سنے گا تو اللہ سے کہوں گا۔ اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ بادشاہ سے زیادہ کریم ہے۔ یہ بات سن کر آپ رحمتہ اللہ علیہ واپس چلے آئے۔ چند دن بعد اس کی نامناسب حرکات حد سے بڑھ گئیں اور لوگ دوبارہ اس کی شکایت کرنے لگے۔ چنانچہ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اس کو تنبیہہ کرنے کا ارادہ کیا۔ راستے میں ہی تھے کہ غیب سے آواز سنی۔ ابھی ہمارے دوست کو اس کے اپنے حال پر چھوڑ دے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کو اس آواز سے سخت تعجب ہوا لیکن آپ رحمتہ اللہ علیہ اس شخص کے پاس چلے گئے۔ جب اس نے آپ رحمتہ اللہ علیہ کو دیکھا تو سمجھ گیا کہ پھر سمجھانے آئے ہیں۔ اس نے کہا کہ پھر آئے ہو۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے کہا کہ میں اطلاع دینے کے لئے آیا ہوں کہ میں نے ایسی آواز سنی ہے۔ اس مفسد نوجوان نے کہا اگر ایسا ہے تو میں اپنی تمام جائیداد خدا کی راہ میں دیتا ہوں۔ یہ کہہ کر سب کچھ لٹا دیا اور نیک بن گیا ۔ حضرت مالک رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک مدت بعد میں نے اس آدمی کو مکہ معظمہ میں دیکھا۔ سوکھ کر کانٹا ہو گیا تھا اور جاں بلب تھا۔اس نے کہا میں دوست کی رضا مندی کیلئے گھر سے نکلا۔ میں اس کی رضا چاہتاہوں چنانچہ میں نے توبہ کی۔ یہ کہہ کر جان دیدی۔
ایک دفعہ آخری عمر میں ایک شخص نے عرض کی کہ مجھے کچھ وصیت فرمائیں۔ فرمایا کہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی کار سازی پر نظر رکھنا تاکہ نجات پائو۔ چنانچہ جب وہ شخص مر گیا تو کسی بزرگ نے اس کو خواب میں دیکھا اور پوچھا کہ اللہ تعالیٰ نے تیرے ساتھ کیا سلوک کیا۔ اس نے کہا دربار خداوندی میں گناہوں سے آلودہ پہنچا۔ محض اس نیک خیال کی بدولت جو میں اللہ تعالیٰ کی کار سازی پر رکھتا تھا۔ اس نے میرے سارے گناہ بخش دیئے۔ ایک بزرگ نے خواب میں دیکھا کہ فرشتے حضرت مالک بن دینار رحمتہ اللہ علیہ اور محمد واسع رحمتہ اللہ علیہ کو جنت میں لے جا رہے ہیں۔ اس بزرگ نے کہا دیکھوں پہلے کون جنت میں جاتا ہے۔ چنانچہ حضرت مالک بن دینار رحمتہ اللہ علیہ کو جنت میں داخل کیا اور پھر حضرت محمد واسع رحمتہ اللہ علیہ کو۔ اس بزرگ نے تعجب سے پوچھا کہ محمد واسع رحمتہ اللہ علیہ زیادہ کامل اور عالم تھے۔ جواب ملا کہ یہ تفاوت محض اس وجہ سے ہے کہ دنیا میں حضرت مالک بن دینار رحمتہ اللہ علیہ کا ایک ہی پیراہن تھا۔( یعنی خدا پر توکل) اور محمد واسع رحمتہ اللہ علیہ کے دو پیراہن تھے۔ یعنی وہ دنیا میں ذاتی کوشش اور اسباب کو بھی مدنظر رکھتے تھے۔
Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 758
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں